15 . صبر
آخر یہ صبر ہے کیا؟ ہر کوئی صبر کی بات کرتا ہے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی۔ آخر یہ صبر آتا کیسے ہے؟ اس کی حقیقت کیا ہے اور اس کو حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے؟
"نفس کے ہاتھوں مغلوب ہو کر گناہ کر لینا صبر نہیں ہے، اور اگر نفس کے ہاتھوں مغلوب ہوئے بغیر گناہ سے رک گیا، تو یہی اصل صبر ہے۔"
اب اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صبر کی تعریف کچھ اس طرح کی:
"یَا أَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ"
(اے ایمان والو! صبر کرو، دوسروں سے بڑھ کر صبر کرو، محاذ پر جمے رہو، اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم فلاح پا سکو۔)
چونکہ نفس اور شیطان گناہ کا حکم دیتے ہیں، اور طبیعت و مزاج بھی اس کے ساتھ ہوتے ہیں، اکثر گناہ ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کو گناہ لگتے ہی نہیں۔ ہر مزاج کو کوئی نہ کوئی گناہ اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اور ایسے گناہ بھی ہیں جو اس معاشرے میں گناہ سمجھے ہی نہیں جاتے۔ نہ صرف شیطان، نفس، مزاج اور ماحول گناہ پر آمادہ کرتے ہیں بلکہ اس گناہ سے کچھ فائدہ بھی ہو رہا ہوتا ہے۔ ہر طرف سے انسان مغلوب ہو چکا ہوتا ہے۔
اب اگر ایسے وقت میں کوئی صرف یہ کہہ کر گناہ چھوڑ دے "اِنِّی أَخَافُ اللّٰہَ" (میں اللہ سے ڈرتا ہوں) — اور اس گناہ کو چھوڑنے سے جو نفسیاتی، جسمانی اور ذہنی دباؤ آتا ہے، اسے برداشت کر لے — تو وہ شخص اصل فاتح ہے۔
وہ ایسا سپاہی ہے جو دشمن کے ریڈ زون سے کامیابی سے گزر گیا۔
اب چونکہ وہ گناہ سے بچ گیا، اگلا حملہ ہوتا ہے — "میں" کا — کہ: "میں گناہ سے بچ گیا"، اور دل میں خود کو پاک و نیک اور دوسروں کو اپنے سے کم تر محسوس کرنے لگتا ہے۔ یہ حملہ دشمن کا پیچھے سے ہوتا ہے، کہ اب جو فتح یاب ہوا، اس کی زمین پر قبضہ کر لیا جائے۔
اس لیے فوراً یہ کہنا ضروری ہے: "یہ اللہ کا فضل ہے، شکر ہے اللہ کی رحمت کا۔"
اللہ کی طرف نسبت دینا ضروری ہے، کیونکہ قرآن میں فرمایا گیا:
"کَذٰلِكَ كُنۡتُمۡ مِّنۡ قَبۡلُ فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَيۡكُمۡ"
(تم بھی تو پہلے ایسے ہی تھے، پھر اللہ نے تم پر فضل کیا۔)
اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"وَسْـئَلُوا اللّٰهَ مِنۡ فَضۡلِهٖ"
(اور اللہ سے اس کا فضل مانگا کرو۔)
اگر نفس کے ہاتھوں مغلوب ہو کر گناہ کر بھی لیا ہو، تو فوراً یہ دعا پڑھیں اور اللہ سے کہیں:
"رَبِّ إِنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ"
(میرے رب! میں مغلوب ہوں، تو میری مدد فرما۔)
صبر علم کا بائی پروڈکٹ (ضمنی نتیجہ) ہے۔ جیسے کیمیکل رد عمل میں کچھ چیزیں اضافی طور پر بنتی ہیں، ویسے ہی صبر بھی۔ جب انسان کا علم بڑھتا ہے، چیزوں کی حقیقت اور ان کی اہمیت کا علم ہوتا ہے، خوفِ خدا اور کامل یقین نصیب ہوتا ہے — تو صبر اس کا ضمنی نتیجہ ہوتا ہے۔
لیکن صبر بھی اللہ کی رحمت اور فضل سے ہی حاصل ہوتا ہے، ورنہ صرف علم ایک طوق ہے — گولہ بن کر اونچی گردنوں میں اٹک جاتا ہے۔ ایسے لوگ ہر جگہ اپنا علم بکھیرتے پھرتے ہیں، لیکن صبر جیسی دولت سے محروم رہتے ہیں۔
صبر کرنے والوں کو اللہ نے خوشیاں دی ہیں۔
مومن کی تعریف سورۃ العصر میں بھی بیان کی گئی ہے، اور کئی اور مقامات پر بھی۔
اگر روحانی فوائد کی بات کریں، تو لذتِ تعلق باللہ اور دل کا روشن ہونا صبر سے ہی حاصل ہوتا ہے۔
لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ صبر تبھی قائم رہ سکتا ہے جب انسان کے سامنے اُس چیز سے بڑی کوئی شے ہو جس پر صبر کر رہا ہے — جیسے جنت کی خواہش، اللہ سے تعلق، یہ احساس کہ “اللہ دیکھ رہا ہے” — یہ سب چیزیں اگر نگاہوں کے سامنے اور ذہن میں موجود ہوں، تو ہی صبر ممکن ہے۔
اللہ پاک ہم سب کو صبر کی توفیق عطا فرمائے اور صحیح معنیٰ میں دین پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین۔
Discussion